تقلیدکاثبوت قرآن سے: اللہ تعالی کاارشادہے اے ایمان والوں اطا عت کرواللہ کی اور اس کے رسول کی اور اپنے میں سے جو اولی الامر ہے ان کی اطاعت کرو: نساء آیت ۵۹

Taqleed in the Quran : Allah Says : “ Ask the people who know, if (when) you do not know.” (Nahl – 43/ambiyaa).

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ تقلید مجتہد




بعض لوگ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  اور حضرت معاذ بن جبل ؓکا صرف اتنا قول پیش کرتے ہیں:حضرت  ابن مسعودؓ فرماتے ہیں،

لا یقلدن رجل رجلاً دینہ :کوئی شخص اپنے دین میں کسی دوسرے کی تقلید نہ کرے۔حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں، اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم اگر عالم ہدایت پر بھی 
ہو تو اس کی دین میں تقلید نہ کرو۔ 



مکمل جملہ اس طرح ہے:

وعن عبدالله بن مسعود قال لا يقلدن أحدكم دينه رجلا فإن آمن آمن وإن كفر كفر وإن كنتم لا بد مقتدين فاقتدوا بالميت فإن الحي لا يؤمن عليه الفتنة رواه الطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح (مجمع الزوائد ج:1 ص:180)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔

قال معاذ بن جبل یا معشر العرب کیف تصنعوں بثلاث دنیا تقطع اعناقکم وزلۃ عالم و جدال منافق بالقرآن فسکتوا فقال اما العالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم و ان افتتن فلا تقطعوا منہ اناتکم فان المومن یفتتن ثم یتوب۔

(جامع بیان العلم و فضلہ ج:۲،ص ۱۱۱)


حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے تین امور سے متعلق پوچھا ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ تم لوگ ایک عالم کی پھسلن سے کیسے بچو گے پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیا کہ اگر عالم ہدایت یافتہ بھی ہو تو اس کی تقلید مت کرو اور اگر وہ کسی دینی معاملہ میں پھسل جائے تو ممکن ہے وہ بعد میں توبہ کرلے۔

(مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
جواب نمبر۱:۔
دینیات  اور ایمانیات میں تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں اہلسنت والجماعت میں سے، نہ اس کے کرنے کا کوئی کہتا ہے سوائے ضروریات ِ احکام شرعیہ معلوم کرنے کیلئے صرف فوت شدہ افراد کے۔ چنانچہ جیسکہ خودہی امام الائمہ حضرت  عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: کہ تم میں سے کوئي دین میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لائے اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے ، اور اگر اقتداء کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو مردوں (فوت شدہ ) کی کرو زندوں کی نہیں کیوں کہ زندہ افراد پر فتنہ سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔(مجمع الزوائد ج:1 ص:180)
جواب نمبر۲:۔
تقلید اجتہاد میں ہوتی ہے اور ائمہ اربعہؒ میں سے  کوئی ایک بھی  دینیات و ایمانیات میں اجتہاد کا قائل نہیں،  یہ سب  ضروریات ِاحکامشرعیہ معلوم کر نے کیلئے مسائل میں استنباط   کے اہل ہیں، وہ بھی سب سے پہلے کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع و اجتہاد صحابہ  کے بعد  پھر اپنا اجتہاد، لہذا ائمہ اربعہؒ کے مدون مذہب  سے ایمان کو  کسی قسم کا خطرہ نہیں البتہ  ان کے علاوہ  اوروں سےجو بعد والے ہیں 
ایمان محفوظ نہیں۔
جواب نمبر3
ہم اہلسنت والجماعت ائمہ اربعہؒ کے اجتہادات جو کہ فقہاء کرام نے جمع کیئے ہیں ان کی تقلید کرتے یعنی ان پر عمل کرتے ہیں اب ائمہ اربعہ کا اگر ایمان محفوظ نہیں تھا تو اور پھر کس کا ایمان محفوظ ہو سکتا ہے۔ جس تقلید کا رد حضرت معاذ ؓ کر رہے ہیں وہ غیر ضروری اجتہاد میں کی جانے والی تقلید ہے۔ جیسے کوئی عالم، دین کے کسی ایسے مسئلے میں اجتہاد کرکے کوئی بات اخذ کرے جس میں اجتہاد کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اس میں تقلید کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ جہاں تک ائمہ کی بات ہے وہ غیر ضروری اجتہادات کے قائل نہیں اور انہوں نے وہیں اجتہاد کیا ہے جہاں اس کی ضرورت پیش آئی ہے اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ یا تو بندہ اپنی مرضی کرنے لگ جائے یا پھر اس مسئلے کا حل مجتہد نکال کر دے۔ اپنی مرضی تو دین میں جائز نہیں  اور اجتہاد غیر مجتہد کے بس کی بات نہیں لیکن مجتہد کیلئے اجتہاد کرنے کی اجازت ہے اب اس موقع پر مجتہد پر اجتہاد کرکے مسئلہ اخذ کرنا اور غیر مجتہد پر اس مجتہد کے مسئلہ پر عمل کرنا واجب ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لئے یا تو مسئلہ صواب پر ہو گا یا خطا پر اگر ”صواب پر ہوا تو دو اجر اور اگر خطا بھی ہوئی تو اس پر بھی ایک اجر ملنے کا وعدہ ہے“ (صحیح مسلم)۔ نہ غیر مجتہد کو قرآن حدیث میں کہیں اجتہاد کی اجازت ہے نہ ہی اس مسئلہ میں جسے مجتہد اخذ کر چکا ہے مجتہد کے خلاف کرنے کی اجازت ہے جب تک کہ وہ اس جیسا مجتہد نہ ہو۔